مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک؛ ابراہیم صابری: ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان اور پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر محمد باقر قالیباف کے پاکستان کے حالیہ دورے کے چند ہفتے بعد اب ایرانی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ علی لاریجانی نے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب تہران–اسلام آباد تعلقات 12 روزہ جنگ کے بعد ایک نئے اور مضبوط مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ حقیقت دونوں ممالک کے مشترکہ موقف اور گزشتہ کچھ عرصے میں ہونے والی سفارتی آمدورفت سے بھی واضح ہوچکی ہے۔ پاکستانی وزیر داخلہ کا تہران کا دورہ ہو یا ایرانی حکام کی اسلام آباد میں ملاقاتیں یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات مزید گہرے اور مؤثر ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر لاریجانی کا یہ دورہ ایک اہم پہلو خطے کی نازک صورتحال ہے۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ کابل اور اسلام آباد کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے ثالثی کرنے کو تیار ہے۔ اس سلسلے میں تہران میں ایک کانفرنس بھی جلد منعقد ہونے والی ہے۔ لاریجانی کا دورہ اس ثالثی کوشش کے حصے کے طور پر کیا گیا ہے۔
دوسری جانب، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حفاظتی اور دفاعی معاہدے بھی حالیہ ایام میں ہونے والے مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ ایران نے قالیباف کے دورے اور محسن رضائی یا شمخانی جیسی شخصیات کے بیانات کے ذریعے اعلان کیا کہ وہ کسی بھی علاقائی حفاظتی نظام میں شراکت کے لیے تیار ہے، تاکہ مشترکہ خطرات کے سامنے اسلام کے عالمی نظم میں ایک نیا توازن قائم کیا جاسکے۔ لاریجانی کا دورہ اس بحث کو عملی سطح پر آگے بڑھانے میں مدد دے سکتا ہے۔
پاکستانی عوام کا ایران کے ساتھ تاریخی موقف بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چاہے وہ دفاع مقدس کے سال ہوں، دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہو یا اسرائیل کے خلاف 12 روزہ جنگ، پاکستانی عوام ہمیشہ ایران کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی کے بعد بعض حلقوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقاومت کو غیر مسلح کرنے کی کوششوں کو تیز کردیا ہے۔ یہ کوششیں براہ راست امریکی–صہیونی مفادات سے جڑی ہوئی ہیں، جن کا مقصد خطے میں مزاحمتی قوتوں کو کمزور کرنا ہے۔ اسی پس منظر میں، پاکستانی فوج کے ممکنہ امریکی–صہیونی منصوبے میں شمولیت شدید تنقید کا باعث بنی ہے۔ پاکستان کے عوام اس منصوبے کو کھل کر مسترد کرچکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس کی بھرپور مخالفت کی جارہی ہے۔ کئی پاکستانی سیاستدانوں نے اسے پارلیمنٹ میں بھی زیر بحث لانے کی درخواست کی ہے، جو اس منصوبے کے کامیاب ہونے کے امکانات کو کمزور کردیتا ہے۔ لاریجانی کا دورہ اسلام آباد کے لیے دوستی کا ایک پیغام اور خبردار کرنے کی نشاندہی کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
مجموعی طور پر اسلام آباد کوئی ایسا مقام نہیں ہے جہاں بغیر منصوبہ بندی کے دورہ کیا جائے۔
ڈاکٹر لاریجانی کا پاکستان کا دورہ ایسے لمحے میں ہورہا ہے جب علاقائی سیکورٹی کا مستقبل، کابل–اسلام آباد کشیدگی اور مقاومت کے خلاف امریکہ اور صہیونی حکومت کے منصوبے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایران اس موقع پر نہ صرف ایک فعال کھلاڑی کے طور پر کام کر رہا ہے، بلکہ کوشش کر رہا ہے کہ خطے کے معاملات کو تعاون، استحکام اور امریکی–صہیونی منصوبوں کے خلاف مزاحمت کے حق میں ہموار کرے۔
آپ کا تبصرہ